Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

اوآئی سی  وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں چین کی شرکت، چین اوراسلامی ممالک کےتعلقات میں ایک نئےباب کاآغاز ہے

چین اوراسلامی دنیا کےدرمیان سٹریٹیجک شراکت داری نےموجودہ جغرافیائی سیاست میں ایک تیسری جہت کااضافہ کیا ہے

sara afzal

                                                                                            تحریر: سارہ افضل

 

اوآئی سی  وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں چین کی شرکت، چین اوراسلامی ممالک کےتعلقات میں ایک نئےباب کاآغاز ہے

چین اوراسلامی دنیا کےدرمیان سٹریٹیجک شراکت داری نےموجودہ جغرافیائی سیاست میں ایک تیسری جہت کااضافہ کیا ہے

 

 

پاکستان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے 48ویں اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای کی شرکت نے چین اور اسلامی ممالک کے مابین تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔57رکنی ممالک پر مشتمل اوآئی سی،دنیامیں اسلامی دنیاکاسب سےبڑا ادارہ ہے۔ اس میں شامل اسلامی ممالک میں فلسطین کےعلاوہ باقی تمام ممالک اقوام متحدہ کےبھیرکن ہیں،جس کی وجہ سےیہ ایک بہت طاقتوراوربااثرادارہ ہے۔یہ پہلاموقع تھاجب کسی چینی وزیرخارجہ نےاوآئ یسی کےاجلاس میں شرکت کی۔اوآئی سی کےرکن ممالک کی جانب سےسیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ نےوانگای کاخیرمقدم کرتےہوئےکہاکہ انکی اس اجلاس میں شرکت خوش آئند ہے اس سے  چین اور اسلامی ممالک کے مابین تعلقات کومزیدفروغ ملےگا۔

ایک ایسے وقت میں کہ جب امریکہ اور اس کے اتحادی چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں ویغور افراد کے ساتھ  ہونے والی انسانی حقوق کی نام نہاد خلاف ورزیوں پر دروغ گوئی پر مبنی بیان بازی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں ،او آئی سی کے اجلاس میں  وانگ ای  کی موجودگی ایک واضح اشارہ ہے کہ”چین میں اور چین سے "مسلمانوں کوکوئی خطرہ نہیں ہے۔ سنکیانگ کے حوالے سے ثبوت کے طور پر  جن کہانیوں کو پیش کیا گیا ہے ان کی صداقت  کے بارے میں خود مغربی ذرائع ابلاغ نے شکو ک و شبہات کا اظہار کیا ہے ۔ اوآئی سی ایجنڈےمیں مسلم امہ کے "حقیقی مسائل ” شامل رہے ،وہ مسائل جن کےوجود  اور منفی اثرات کو زمینی حقائق  کی روشنی میں جھٹلایا  نہیں جا سکتا۔سنکیانگ کے معاملات کا ذکران میں نہ ہونا اس امر کا واضح عکاس ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاکوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے اور یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ایک ایسا سیاسی مہرہ ہے جسے وہ اپنے اثر ورسوخ کو کم ہوتا دیکھ کر بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ۔

اسلامی ممالک ، امریکہ کی دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں  مداخلت سے ناصرف خائف ہیں بلکہ بہت سے ممالک امریکہ کے ” یوز اینڈ ڈمپ ” روئیے کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں ۔اس کے برعکس، چین دوسرے ممالک کے داخلی  معاملات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ مذاکرات اور بات چیت سے مسائل کے حل کی حمایت کرتا ہے اور ممالک کے معاملات ان کی صوابدید کے مطابق حل کرنے کی وکالت کرتا ہے ۔یہی وجوہات ہیں کہ اسلامی ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں اور ناصرف عالمی و داخلی معاملات کے حوالے سے چین کی خارجہ پالیسی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں بلکہ ایک بڑی ،مستحکم اور قابلِ اعتبار تجارتی  منڈی اور ایک طویل مدتی شراکت داری کے مواقع بھی ان کے لیے بے حد خوش کن ہیں ۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو عرب ممالک اور چین دونوں قدیم زمانے میں قریبی تجارتی شراکت رہے ہیں اور اب ایک ایسے وقت میں جب چین اپنا عالمی اقتصادی غلبہ دوبارہ حاصل کر رہا ہے عرب ممالک اس تاریخی تعلق کو دوبارہزندہ کرنے کے خواہاں ہیں ۔اس تجارتی بلاک کےکھلنےسےان ترقی پذیرممالک کےلیےمارکیٹس بنانےمیں بھی مدد ملےگی جوغیرمنصفانہ قوانین کا شکار ہوئے اور تکنیکی طورپرترقی یافتہ معیشتوں سےباہرہوچکےہیں۔ چین اوراوآئی سی دونوں کےشراکت داراس وسیع مارکیٹ میں شامل ہوں گے تو قابل عمل اورمتبادل ویلیوچینزبنیں گی ۔چینی وزیرخارجہ کی اوآئ سی اجلاس کےدوران اسلامی ممالک کےسربراہان سےکی جانےوالی ملاقاتیں بےحدمثبت تھیں اورتمام ممالک نےچین کی غیرجانبداری،امن وامان کےقیام کےلیےکی جانےوالی مصالحتی کوششوں اورترقی پذیرممالک کےلیےاقتصادی ومعاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنےکےمنصوبوں کوکھلےدل سےسراہااوران میں شرکت کواپنےملک اورعوام کی فلاح وترقی کےلیےایک بہترین موقع قراردیا ۔  سعودی ولی عہدکےساتھ ملاقات میں  "سعودی عرب گرین اینڈ مڈلایس ٹگرین انیشئیٹو ” اور "سعودی عرب کےوژن 2030” کی بھرپورحمایت کرتےہوئےانہوں نےسعودی عرب کےساتھ ایک نئےہمہ گیراوراعلیٰ سطحی تعاون کےقیام کی خواہش کابھی اظہارکیاجبکہ سعودی عرب نے،دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹوکےساتھ اپنی وابستگی کومزید تقویت دینےاورمختلف شعبوں میں تعاون کووسعت دینےکی خواہش ظاہرکی ۔

موجودہ کانفرنس کا موضوع ’’اتحاد،انصاف اورترقی کےلیےشراکت داری‘‘تھا۔ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں دیکھیں تو جیسا کہ خود چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اس وقت چین کی اس اجلاس میں موجودگی چین اورعالم اسلام کی تعاون کومزید گہراکرنےکی شدید خواہش کی عکاس ہے اور وہ چین اور عالم اسلام اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم  کے سیکرٹری جنرل حسین براہیم طحہ سے ملاقات میں بھی  وانگ ای نے چین اور اسلامی دنیا کے ساتھ یکجہتی، دوستی اور تعاون کو نئی سطح پر لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ  او آئی سی ، چین اور اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کی ترقی کے لیے ایک پل کا کام کرتی ہے اور چین اسلامی ممالک کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے قومی حالات کے مطابق ترقی میں تعاون کرنے  نیز تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے ۔چین  نے اسلامی ممالک کو وبائی امراض سے لڑنے میں مدد فراہم کی ، کم ترقی یافتہ اسلامی ممالک اور اسلامی ترقیاتی بینک  کی مدد کی اور افریقہ میں اسلامی ممالک کے ہزاروں طلباکو تربیت دینے میں بھی  چین نے اہم کردار ادا کیا ۔

چین اوراسلامی دنیا کےدرمیان سٹریٹیجک شراکت داری نےموجودہ جغرافیائی سیاست میں ایک تیسری جہت کااضافہ کیا ہے۔ یہ شراکت داری یقینی طورپرطاقت کےتوازن کوان لوگوں کی طرف جھکائےگی جن کی آوازکوابتک دبایا گیا یا نظراندازکیا گیا تھا۔ اوآئی سی اجلاس میں چین کی شرکت،مسلم ممالک کےاس یقین کا اظہاربھی ہےکہ مسلم دنیا کے لیے،چین ایک حقیقی دوست ہے جس کے کوئی تسلط پسندانہ مفادات یا رجحانات ہی ںہیں۔

 

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More