Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

یہ کس سمت چل دیے !

جو مسلمان اس ملک میں موجود ہیں انکی اصلاح کرنا انکو ایک مکمل مسلمان بنانا بھول رہے ہیں

تحریر : مدیحہ مجتبیٰ

 

                                                   یہ کس سمت چل دیے !

جو مسلمان اس ملک میں موجود ہیں انکی اصلاح کرنا انکو ایک مکمل مسلمان بنانا بھول رہے ہیں

 

یہ کس سمت چل دیے ! ” اسلامی جمہوریہ پاکستان ” جی بلکل یہی نام یہی پہچان ہے میری آپ کی اور اس ملک کے ہر فرد کی ،یہ ملک جس کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر رکھی گئی نا جانے آج وہ نظریہ کہاں گم ہو گیا ، اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے میں اپنے عزیز ہم وطنوں کی توجہ اس دو قومی نظریے کی جانب لے جانا چاہتی ہوں ۔

دو قومی نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ، تمام دنیا کے غیر مسلم یا کافر( یہودی ،ہندو ،بدھ مت، مجوسی یا عیسائی وغیرہ ) ایک ملت ہیں جبکہ دنیا میں بسنے والے تمام مسلمان دوسری ملت ہیں، یوں یہ نظریہ صرف تحریک پاکستان کے لیڈروں کا نہیں بلکہ "قرآن مجید” اور ” محمد مصطفٰی” کا بیان کردہ ہے اور اسی نظریے کی بنیاد پر یہ دیس ‘پاکستان’ بنا ، اور آج ہم اسی نظریے اسی پس منظر کو بھول کر آج کے لیڈروں کے پیچھے رمضان کریم جیسے مقدس ماہ کو فراموش کرتے نظر آ رہے ہیں !

ماہ رمضان کی اہميت اور اسکا تقدس بھول کر ہم جلسوں میں ، کبھی سوشل میڈیا پر ،کبھی افطار پارٹیوں اور کبھی ٹی-وی نیوز چینلز پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو برا بھلا کہہ اور سن رہے ہیں ، ایک نفسہ نفسی کا عالم ہے اور ہر طبقہ عمر سے تعلق رکھنے والے ایسے میں مخالف پارٹیوں کے نمائندوں کو بد ترین القابات سے نواز رہے ہیں ، بےشک یہ ایک آزاد جمہوری ریاست ہے اور ہر فرد کو اظہار رائے کا حق ہے اور اپنی پسند کے عوامی نمائندے کو ووٹ دینا اور اسکو اور اسکی پارٹی کو سراہنا بھی ہر پاکستانی کا قومی فرض بھی ہے لیکن ہم۔اس سب میں یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ہم  سب سے پہلے ایک مسلمان ہیں ،کلمہ گو ہیں اور اسلام ہی کی بنیاد پر ہمیں یہ آذاد وطن حاصل ہوا ہم اس مقدس نعرے کو کیسے بھول گئے ، پاکستان کا مطلب کیا ، * ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ * ۔۔۔ سنت کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ مندرجہ بالا فرمان مصطفٰی کیسے بھول سکتے ہیں ،

 قال رسول الله صلى الله علیه و آله و سلم ،”لو يعلم العبد ما فى رمضان لود ان يكون رمضان السنة” ، رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر بنده «خدا» کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کیا ہے، (اور یہ کن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے) وه چاہتا کہ پورا سال ہی روزہ رمضان ہوتا۔۔۔

افسوس عالم دین اور بڑے بڑے علم والوں پر جو ملک کی موجودہ صورت حال اور عوام کی اسلام سے دوری پر خاموش بیٹھے صرف تبلیغ کا کام سر انجام دے رہے ہیں ،اسلام کو پھیلا رہے ہیں لیکن افسوس جو مسلمان اس ملک میں موجود ہیں انکی اصلاح کرنا انکو ایک مکمل مسلمان بنانا بھول رہے ہیں، کیا ان میں سے کوئی ان سیاسی لیڈروں کے پاس گئے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ ، سیاسی لیڈر کا   فرض صرف اسلامی ریاست کا نعرہ لگانے سے نہیں پورا ہوتا بلکہ عوام کو صحیح سمت دکھانے سے پورا ہوتا ہے ، عوام کو اس ماہ مقدس کی اہمیت اور اسکا تقدس و تکریم سکھانے کے بجائے سیاسی جلسوں میں بد کلامی، دشنام طرازی ،نفرت ،شر پسندی اور خانہ جنگی کی غلط ترغیب دے رہے ہیں ،مدینہ کی ریاست کا بول بالا کرنے والے "نبی پاک صل اللہ علیہ السلام” کی روزے جیسی سنت کو کیسے پامال کر سکتے ہیں ،عبادت کے اس مہینے میں یہ لیڈر اپنی مسلمان قوم کو کس سمت لے کر چل دیے جہاں جلسوں میں تلاوت قرآن اور نعت کے بعد موسیقی اور پھر صرف اور صرف نفرت بھری اور اشتعال انگیز  تقاریر اور موسیقی پر رقص ہو رہے ہیں اور ایک مسلمان قوم کو صرف نفرت اور دوسروں کا مذاق اڑانا سکھایا جا رہا ہے،

ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے ،

جہاں اخلاقی تربیت کا فقدان ہو وہاں لیڈر کو پہلا سبق بہترین اخلاق کا دینا چاہیے نا کہ اس ماہ مقدس کے منافی باتوں کو فروغ دیا جائے ،” رمضان” تو پیار،محبت ،صبر ،استقامت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے ، معاف کرنے ،درگزر کرنے اور تحمل مزاجی اور قربانی و ایثار کا سبق دیتا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ ، * پاکستان کا مطلب کیا ؟ ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ * ، ہم اس نظریے کو کیسے فراموش کر کے کوئی اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں ؟ ہم آئین پاکستان کو توڑ کر کیا ایک پاکستانی لیڈر کہلانے کے حقدار ہو سکتے ہیں ؟ کیا ملک کو مزید فرقوں میں تقسیم ہوتا دیکھا جا سکتا ہے اور کیا مذہب کارڈ کو ہر پل ایسے ہی حالات میں لوگوں کو ایموشنل بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ بحیثیت مسلمان یہ جلائو، گھرائو اور گالی کی سیاست کی قرآن، آئین اور قانون شدید ممانعت کرتا ہے،   جس سے پہلے ہی اس ملک کی ساخت کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے اس لیے اس ملک کو مزید کسی نقصان سے بچانے کے لیے ہر شہری کو سب سے پہلے اپنی اصلاح اور اپنے اندر اعلی اخلاق کو ابھارنے کی کوشش کرنی چاہیے نا کہ سیاسی پارٹیوں کے پاور شو میں جا کر دوسروں پر تنقید کرنی اور انکو برا بھلا کہنا چاہئیے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More