Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

چین اعلی معیار کی ترقی کے اہداف وقت سے پہلے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

چین کی مستقبل کی ترقی صرف محنت اور موجود وسائل کی بجائے سائنسی اور تکنیکی اختراع پر مبنی ہونی چاہیے

سارہ افضل

                                                                                             تحریر : سارا افضل

 

چین اعلی معیار کی ترقی کے اہداف  وقت سے پہلے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے  

چین نے اعلی معیار کی ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں کے ساتھ  اپنی معیشت کے مجموعی معیار کو بہتر بنانے کے لئے ایک خاکہ جاری کیا ہے۔جس کے مطابق ملک کا ہدف ، اعلی  معیار کی پیداوار میں اپنی طاقت کو بڑھانا اور ۲۰۲۵  تک چینی برانڈز کے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ کرنا ہے۔پیش کردہ  خاکے میں  معاشی ترقی کے معیار اور کارکردگی میں واضح بہتری لانے، صنعتوں کے معیار اور مسابقت میں مسلسل اضافہ کرنے اور مصنوعات،منصوبوں اور خدمات کے معیار کی سطح کو نمایاں طور پر بڑھانے کے لئے اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس  کے علاوہ برانڈ بلڈنگ میں زیادہ سے زیادہ پیش رفت، زیادہ جدید اور موثر معیار کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ۲۰۲۵  تک ملک کے کوالٹی مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کے اہداف بھی مقرر کیے گئے ہیں ۔پیش کردہ خاکے کے مطابق  ۲۰۳۵تک ، چین  ایک زیادہ مضبوط  بنیاد تشکیل دے چکا ہوگا  اور معیار کی ترقی کے لئے ایک اعلی درجے کا ماحول تیار کیا جا چکا ہوگا جس سے معیار اور برانڈز کے لحاظ سے اس کا اثرو رسوخ اعلی سطح تک پہنچ جائے گا۔

اس وقت اگر ہم چین کے معاشی ترقی کے ماڈل میں اعلی معیار کی ترقی کے حوالے سے چین کے پالیسی اقدامات اور پیش رفت کو دیکھیں تو  یہ بات بلا جھجک کہی جا سکتی ہے کہ چین اس خاکے میں پیش کردہ اہداف کو مقررہ مدت سے پہلے ہی حاصل کر لے گا ۔ "جدت و اختراع ” کو معاشی ترقی کے انجن کا کلیدی پرزہ بنانے سے بلاشبہ چین کی ترقی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ ایک دہائی قبل، پہلی بار، سی پی سی کی 18 ویں قومی کانگریس میں یہ بات  واضح طور پر کہی گئی تھی کہ سائنسی اور تکنیکی جدت و اختراع ، سماجی پیداوار اور قومی طاقت کو بہتر بنانے کے لئے ایک اسٹریٹجک معاونت اور سہارا  ہے، لہذا  اسے مجموعی ترقی کا مرکز  رکھنا  چاہئے۔اس حوالے سے پہلی مرتبہ عوامی طور پر  جدت و اختراع  پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کا تصور پیش کیا گیا اورہدایت کی گئی کہ اس سلسلے میں چین کو چینی خصوصیات کے ساتھ آزاد انہ جدت و اختراع  کے راستے پر عمل کرنا ہے اور جدیدیت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کو نافذ کرنا ہے۔ بلاشبہ یہ دنیا پر نظر رکھتے  ہوئے اور مستقبل کا سامنا کرنے کے لئےسی پی سی کا  ایک بڑا فیصلہ تھا ۔

"جدت و اختراع پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی” کی دو بنیادیں ہیں: ایک ، چین کی مستقبل کی ترقی صرف محنت اور موجود وسائل کی  بجائے سائنسی اور تکنیکی اختراع پر مبنی ہونی چاہیے۔ دوسری ، تمام جدت طرازی کا مقصد قومی سماجی و اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانا ہے، نہ کہ صرف اعلیٰ سطحی مقالے چھاپ چھاپ کر ایک انبار لگا دیا جائے جب کہ عملی طور پر ان کی افادیت نہ ہو۔ اس بنیاد پر ، مرکزی اتھارٹی نے چینی خصوصیات کے ساتھ قومی جدت  و اختراع کا  نظام تشکیل دینے کے لیے نئے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی متعدد اعلی سطح کی قومی حکمتِ عملیاں شائع کیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران بعض ممالک کی جانب سے مسلسل دباو کے باوجود چین نے سائنسی اور تکنیکی شعبے  میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ این بی ایس کے مطابق، گزشتہ ۱۰ سالوں میں، چین میں سرکاری اور نجی دونوں طرح کی آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کی مجموعی رقم ۲۰۱۲ کے ایک اعشاریہ تین ٹریلین چینی یوآن (۱۵۰ ارب ڈالر) سے بڑھ کر ۲۰۲۱  میں ۲ اعشاریہ ۷۹ ٹریلین یوآن (۴۱۰  ارب ڈالر) ہوگئی ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی جانب سے شائع کردہ گلوبل انوویشن انڈیکس میں چین کی رینکنگ ۲۰۱۲ میں ۳۴ ویں سنمبر پر تھی جو کہ ۲۰۲۲ میں گیارہویں ویں نمبر پر آ گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدت و اختراع کے عالمی میدان میں چین کی حیثیت اور کردار میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں، ترقی کے نئے نمونے کو قائم کرنے کے لئے، چین کو پرانی مارکیٹس کو بڑھانے یا نئی مارکیٹس کو تشکیل دینا ہو گا ۔ اس کے لیے "مارکیٹ انضمام”اہم کرداراداکرسکتاہے۔اس حوالے سے چین کے صدر شی جن پنگ کے بیان کردہ  نظریات میں انضمام کےدوپہلوہیں: ایک،قومی سطح پر مقامی انضمام،یعنی دیہی اورشہری انضمام کوآگےبڑھانا ،علاقائی رکاوٹوں کوعبور کرنا ،اورآخرمیں ایک متحدہ قومی مارکیٹ کی تشکیل ۔ دوسرا،عالمی سطح پربین الاقوامی انضمام،جس کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹوکی اعلی معیارکی ترقی کوفروغ دینا اورایک کھلے،متنوع اورمستحکم عالمی معاشی نظام کےقیام میں مدد کےلئے عالمی اقتصادی اورتجارتی قوانین کےمذاکرات میں فعال طورپرحصہ لیناہوگا۔ چین کے کچھ علاقوں کااپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے باعث اپنے ہمسایہ صوبوں کےمقابلےمیں بیرونی دنیاسےتعلق زیادہ ہے،جبکہ دوسرےخطوں نےچھوٹی مالی گردشوں کواپنے وسائل کے مطابق محفوظ کیا ہےجوکسی وسیع رابطےکےبغیرصرف مخصوص علاقوں کااحاطہ کرتی ہیں۔اسی لیے چینی ماہرین اور حکومت ایک متحدہ مستحکم مارکیٹ کے قیام کے لیے تیزی سے مختلف پالیسیز اور اقدامات سامنے لا رہی ہے تاکہ ایک بڑی متحدہ مارکیٹ کا نہ صرف ایک وسیع اورمتنوع دنیا کےساتھ اچھا رابطہ ہو بلکہ یہ اپنی گونا گوں صلاحیتوں کے ذریعے دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں بھی اہم کردار ادا کرے  اور یہی وجہ ہے کہ چین اپنے اہداف کے حصول میں  وقت کی رفتار  کے ساتھ  آگے بڑھتا جا رہا ہے اور یقیناً انہیں طے شدہ وقت سے پہلے حاصل کرنے کی مکمل  صلاحیت رکھتا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More